یادوں کے پرندے
سب کہتے ہیں کہ پرانی یادیں میں کہتی ہوں کہ یادیں کبھی پرانی نہیں ہو تی ہیں ۔۔ یادیں تو پرندوں کی طرح چھوٹے چھوٹے مگر مضبوط گھونسلے بنا لیتی ہیں اور ان کی یہی خاصیت ہوتی ہے کہ پرندے اگر ہجرت کر بھی لیں تو اپنے گھونسلے وہیں چھوڑ دیا کرتے ہیں۔۔
یہ یادوں کی تہیں بن جاتی ہیں نیچے چلی جاتی ہیں تہذیب سے رکھے کپڑوں کی طرح پھر کسی بھولی بسری درد کی طرح شدت پکڑ لیا کرتی ہیں ہم بھی انہیں روتے ہوئے بچے کی طرح سہلانے لگتے ہیں اور زندگی کے صندوق میں پھر تہذیب سے کپڑوں کی طرح رکھ دیا کرتے ہیں۔
یادوں کے پرندے سائے کی طرح ہوتے ہیں ہمیں تنہا پا کر چپکے سے چلے آتے ہیں اور ہم پلک جھپکتے ہی سفر تہ کرتے ہیں اور یادوں کے پرندے کا ہاتھ پکڑ کر واپس اسی وقت میں چلے جاتے ہیں سب کچھ جیسے کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔۔کبھی روتے کبھی ہنستے کبھی خود کی غلطیوں پر خود ہی کو لعنت ملامت کرتے ہیں پھر انہی سوچوں میں چپکے سے یاد کے پرندے ہمیں واپس چھوڑ دیا کرتے ہیں۔۔
یہ یادوں کی تہیں بن جاتی ہیں نیچے چلی جاتی ہیں تہذیب سے رکھے کپڑوں کی طرح پھر کسی بھولی بسری درد کی طرح شدت پکڑ لیا کرتی ہیں ہم بھی انہیں روتے ہوئے بچے کی طرح سہلانے لگتے ہیں اور زندگی کے صندوق میں پھر تہذیب سے کپڑوں کی طرح رکھ دیا کرتے ہیں۔
یادوں کے پرندے سائے کی طرح ہوتے ہیں ہمیں تنہا پا کر چپکے سے چلے آتے ہیں اور ہم پلک جھپکتے ہی سفر تہ کرتے ہیں اور یادوں کے پرندے کا ہاتھ پکڑ کر واپس اسی وقت میں چلے جاتے ہیں سب کچھ جیسے کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔۔کبھی روتے کبھی ہنستے کبھی خود کی غلطیوں پر خود ہی کو لعنت ملامت کرتے ہیں پھر انہی سوچوں میں چپکے سے یاد کے پرندے ہمیں واپس چھوڑ دیا کرتے ہیں۔۔
👍👍👍
جواب دیںحذف کریںShukria
حذف کریں💕💕
حذف کریں😍
حذف کریںZberdast .kamal.superb.keep it up dear.stay blessed.
جواب دیںحذف کریں