موت

ہم ساری عمر ایک عجیب سے چو ہے بلی کے کھیل میں مبتلا ہو تے ہیں اور یہ کھیل ہم اور ہماری موت کے درمیان میں ہے مجھے بس مرنے والوں میں شامل ہونے سے ڈر نہیں لگتا بس اپنے قریبی احباب کو مرتے ہوئے دیکھنے سے لگتا ہے ہم چاہ کر بھی مرنے والوں کو اپنے پاس محفوظ نہیں رکھ سکتے ہیں میں نے مرنے والوں کے قریبی لوگوں کو ہاتھ جوڑتے روتے بلکتے دیکھا ہے مگر مرنے والے کو اسکی منزل مقصود تک پہنچا دیا جاتا ہے۔۔
مرنے والوں کو کوئی نہیں روتا ہم انکے بغیر ہونے والے نقصان کو روتے ہیں لوگ ہماری کہانی میں اپنا کردار ادا کر ہمارے سامنے بستر پر مردہ پڑے ہوتے ہیں اور ہم سوائے آ نسوں اور سفید لباس کے ان کو کچھ نہیں دے پاتے سارے شکوے ساری شکایتیں اور ساری خواہشات ہمارے سامنے مردہ پڑی ہوتی ہیں نہ۔۔ پھر دنیا کا ستم کے دھکوں میں آ پ نظر بھر کر بھی مرنے والوں کو دیکھ نہیں پاتے۔۔
مرنے والوں پر صبر آ تے آ تے ہی آتا ہے اور کچھ عرصے تک اتنا صبر آ جاتا ہے کہ بس بھولی بسری یادوں میں پرانی ٹوٹی تصویروں میں اور بس تنہائیوں میں اور آ ہستہ آہستہ بس قبر کی بوسیدہ تختیوں پر رہ جاتے ہیں ۔۔۔ دکھ تو بس رہنے والوں یا سہنے والوں کے دل میں کسی مرض کی طرح پلتا رہتا ہے۔۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Shukria

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گھاٹے کے قیمتی سودے

سورہ کہف

صبر اور اللہ