اشاعتیں

جنوری, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

, محبت ‏فہمی

یہ محبت نہ تو خوش فہمی ہوتی ہے اور نہ ہی غلط فہمی یہ ان دونوں کا کوئ ملا جلا سا تاثر ہے محبت ایسے تھوڑی ہوتی ہے بغیر دیکھے ہو ہی نہیں سکتی۔۔ اس میں سامنے والے کو خامیوں اور خوبیوں سمیت قبول کرنا پڑتا ہے جس میں ایک بھی خامی دکھ جائے اس سے محبت نہیں ہے سمجھ جائیں اسکی بس عادت ہے اور عادت ہمیشہ محبت سے بھی زیادہ خطر ناک ہوتی ہے سامنے والا ذہر بھی لگتا ہو مگر سامنے ہو عادت میں بس ہونا ضروری ہے۔۔ ہم شدید عادت کو محبت سمجھ کر پریشانی کا شکاد ہو تے ہیں مگر عادت اور محبت میں خاص بات پتا کیا ہے عادت ایک وقت میں کئ لوگوں کی بھی ہو سکتی ہے مگر محبت ایک وقت میں  بس ایک ہی سے ہو سکتی ہے۔۔ دل جیسے پتھر کو موم بنا دیتی ہے محبت میں مبتلا لوگ زندگی ترک کر دیتے ہیں کسی  اور کے ساتھ شروع نہیں کرتے۔۔عادت میں ہم کسی کو ہمیشہ کے لیے ہمسفر چننے کی حماقت نہیں کرتےپرندوں کی طرح قید کر لیتے ہیں بعض پرندے عادت سے اتنے مجبور ہو جاتے ہیں کہ پنجرے کھول دینے پر بھی ہجرت نہیں کیا کرتے۔۔ 

غیر ‏مضبوط ‏رشتے

بذدل لوگ بے معنی اور غیر مضبوط رشتوں کو فروغ دیتے ہیں اور پھر راستے میں چھوڑتے دیتے ہیں اتنا وقت ضائع کرتے ہیں صرف اور صرف اپنی نفس کی تسکین میں۔۔ اگر کسی سے رات رات جاگ کر باتیں کرنے کا حوصلہ ہے تو پھر ہاتھ تھام لینے کا حوصلہ کیوں نہیں ہو سکتا۔۔ ادمیوں میں تو اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ اگے بڑھ کر کسی کو ہمیشہ کے لیے اپنا ہم سفر چن لیں۔۔ بند کر دیں کسی کی وقت گزاری کا ذریعہ بننا کسی سے تو رشتہ جوڑنا ہے پھر اسی سے کیوں نہیں جس کا وقت ضائع کرتے ہیں۔۔ مگر یہاں مسلہ ایک انسان کا وقت برباد کرنے کا نہیں ہے لوگ ایک دوسرے کو بس دل بہلاوے کی چیز سمجھ کے چھوڑتے کے لیے اپناتے ہیں۔۔  بات صرف سمجھنے کی ہے بس بات ہے رسوائ کی۔۔ایسے لوگوں اور راستوں کو چھوڑ دیں جو نا پایہ دار ہو جو راستہ کہیں نہیں نکلتا اسے ترک کردیں خود کو اتنا مضبوط بنائیں کے کوئ چھوڑنے لگے تو روح میں ایک دفعہ تکلیف تو ہو۔۔ خود کو بے وقعت نہ بنائیں کے کوئ چھوڑنے سے پہلے سوچے بھی نہ۔۔  

مکافات ‏عمل

انسانوں پر ساری عمر نئے سے نئے انکشافات ہو تے رہتے ہیں بس شعور کسی کسی میں ہوتا ہے۔ ہر کسی کی اپنے نفس پر گرفت مضبوط نہیں ہو تی کہ اسے مکافات عمل  سے ڈر لگے ہم لوگ اس دنیا کو ہمیشہ کی اماج گاہ سمج لیتے ہیں پھر اپنی طاقت کا ہر اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے کیا جا سکتا ہے۔۔ کبھی ہاتھ سے کبھی پاوں سے اور سب سے زیادہ ذبان سے دوسروں پر ظلم کرنے کی کوئ کسر نہیں چھوڑتے مگر اسی دنیا میں پکڑ کا وعدہ کیا ہے خالق کائنات نے جو وعدہ کبھی نہیں بھولتا چاہے کوئ دیکھنے والا نہ بھی ہو وہ انسان کو بتا دیتا ہے کہ دنیا کی فرعون اسی دنیا میں رسوا کر دیے جائیں گے۔۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ عمل حقیقت ہے اور اس کے کفارے ادا کرنے اسان نہیں ہیں۔۔ انکی تعثیر بہت بے ہنگم ہوتی ہے۔۔ ذبان کے خنجر کتنے ذہریلے ذخم دیتے ہیں نہ کہ ان پر مرحم تک نہیں لگتا کوئ چھوٹا سا طنز سامنے والے کے دل پہ ضرب لگا سکتا ہے اور دل پہ لگی چوٹ دیوار پر کیل ٹھوکنے کے برابر ہیں۔سوراخ کہیں بھی بھرے نہیں جاتے چاہے دل پہ ہوں یا پتھر کی دیوار پر۔۔

زندگی کا سبق

ذندگی بڑے درس دیتی ہے چاہے کوئ سیکھنا نہ بھی چاہے ذندگی جیسا کوئ استاد نہیں.پہاڑ جیسی ذندگی میں نہ تو ہم اپنی مرضی سے اتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے دنیا چھوڑتے ہیں۔۔ یہاں سب کچھ ہے سواے سکون کے سب کو اسی کی تلاش ہے اور میں نے اس جیسا فانی کسی چیز کو نہیں پایا۔۔ ہم ساری عمر ذندگی کی کتاب سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں اور کچھ سبق اتنے مشکل ہو تے ہیں جو ساری عمر کی محنت کے بعد بھی نہیں اتے اور ان میں سب سے خوفناک سبق ہے دنیا داری یہاں سب سے مشکل ہے ہر انسان کو خوش کرنا ہے ہم ایک وقت میں سب کے پسندیدہ نہیں ہو تے اگر کسی کی ذندگی میں ہم ہیرو ہیں تو کسی کی ذندگی میں ہم ویلن ہو تے ہیں۔ یہاں سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں ہو سکتا ذندگی گزارنا کہاں مشکل ہے یہ تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جا تی ہے ذندگی تو جینا مشکل ہے بہت مشکل لمبا سفر ہے اور کانٹوں کا راستہ پھر اپنی خواہشات کا بوجھ اور دنیاداری جو پاوں کی بیڑیاں بن کر راستے میں حایل ہے۔۔ ہم ہمیشہ اپنے مستقبل کی سوچ میں رہتے ہیں حال کو جیسے تیسے گزارنا چاہے ہیں اور کبھی بھی جی ہی نہیں پاتے پھر ذندگی ساری عمر کسی اڑیل استاد کی طرح نت نیا سبق پڑھانے میں ل...

یادوں کے پرندے

سب کہتے ہیں کہ پرانی یادیں میں کہتی ہوں کہ یادیں کبھی پرانی نہیں ہو تی ہیں ۔۔ یادیں تو پرندوں کی طرح چھوٹے چھوٹے مگر مضبوط گھونسلے بنا لیتی ہیں اور ان کی یہی خاصیت ہوتی ہے کہ پرندے اگر ہجرت کر بھی لیں تو اپنے گھونسلے وہیں چھوڑ دیا کرتے ہیں۔۔ یہ یادوں کی تہیں بن جاتی ہیں نیچے چلی جاتی ہیں تہذیب سے رکھے کپڑوں کی طرح پھر کسی بھولی بسری درد کی طرح شدت پکڑ لیا کرتی ہیں ہم بھی انہیں روتے ہوئے بچے کی طرح سہلانے لگتے ہیں اور زندگی کے صندوق میں پھر تہذیب سے کپڑوں کی طرح رکھ دیا کرتے ہیں۔ یادوں کے پرندے سائے کی طرح ہوتے ہیں ہمیں تنہا پا کر چپکے سے چلے آتے ہیں اور ہم پلک جھپکتے ہی سفر تہ کرتے ہیں اور یادوں کے پرندے کا ہاتھ پکڑ کر واپس اسی وقت میں چلے جاتے ہیں سب کچھ جیسے کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔۔کبھی روتے کبھی ہنستے کبھی خود کی غلطیوں پر خود ہی کو لعنت ملامت کرتے ہیں پھر انہی سوچوں میں چپکے سے یاد کے پرندے ہمیں واپس چھوڑ دیا کرتے ہیں۔۔

جو نہ مل سکا وہی یاد ہے

ہر انسانی کے لیے ہر چیز نہیں ہوتی کسی نہ کسی چیز کہ کمی چھوڑی گئ ہے تاکہ انسان خود کو انسان ہی سمجھے۔۔انسان کی ذندگی میں سب سے خوفناک انکشاف پسندیدہ چیز پر لا حاصل کی بے بسی ہے وہ چیز جو نہیں ملتی نہ ساری عمر وہ یاد رہتی ہے چاہے کوئ بے جان شہ ہو یا کوئ جیتا جاگتا شخص جو مل جاتا ہے اس کی قدر کہاں ہوتی ہے جو نہ مل سکا وہی یاد  دہ جاتا ہے۔۔ چیزیں تو چیزیں ہوتی ہیں کسی اور صورت میں ہی صحیح مگر ان کا مل جانا آسان ہے مگر جب انسان کھو جائیں یا چھوڑنے پڑیں تو ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے بھیڑ میں کوئی بچہ کھو جائے ساری دنیا بھی تلاش کر لی جائے مگر جس کا ملنا ممکن نہیں رونے بلکنے سے فرق نہیں پڑتا پھر مرنے کا غم بھی کھو جانے سے کم ہے کیونکہ مرنے کے بعد واپسی کی امید بھی دم توڑ جاتی ہے مگر پسندیدہ انسان کا نہ ملنا سولی پر لٹکانے کی طرح ہے ہر وقت کوئی امید ہوا کے جھونکوں کی طرح آتی ہے اور بے بس سی اداسیاں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ ساتھ کھڑا شخص چاہے سونے کا ہی کیوں نہ ہو ہمیں کسی کوئلے کا نہ ملنا ساری عمر ذہن نشین رہتا ہے۔۔اسانی سے ملی ہوئی چیزوں کی قدر کہاں ہوتی ہے۔۔

موت

ہم ساری عمر ایک عجیب سے چو ہے بلی کے کھیل میں مبتلا ہو تے ہیں اور یہ کھیل ہم اور ہماری موت کے درمیان میں ہے مجھے بس مرنے والوں میں شامل ہونے سے ڈر نہیں لگتا بس اپنے قریبی احباب کو مرتے ہوئے دیکھنے سے لگتا ہے ہم چاہ کر بھی مرنے والوں کو اپنے پاس محفوظ نہیں رکھ سکتے ہیں میں نے مرنے والوں کے قریبی لوگوں کو ہاتھ جوڑتے روتے بلکتے دیکھا ہے مگر مرنے والے کو اسکی منزل مقصود تک پہنچا دیا جاتا ہے۔۔ مرنے والوں کو کوئی نہیں روتا ہم انکے بغیر ہونے والے نقصان کو روتے ہیں لوگ ہماری کہانی میں اپنا کردار ادا کر ہمارے سامنے بستر پر مردہ پڑے ہوتے ہیں اور ہم سوائے آ نسوں اور سفید لباس کے ان کو کچھ نہیں دے پاتے سارے شکوے ساری شکایتیں اور ساری خواہشات ہمارے سامنے مردہ پڑی ہوتی ہیں نہ۔۔ پھر دنیا کا ستم کے دھکوں میں آ پ نظر بھر کر بھی مرنے والوں کو دیکھ نہیں پاتے۔۔ مرنے والوں پر صبر آ تے آ تے ہی آتا ہے اور کچھ عرصے تک اتنا صبر آ جاتا ہے کہ بس بھولی بسری یادوں میں پرانی ٹوٹی تصویروں میں اور بس تنہائیوں میں اور آ ہستہ آہستہ بس قبر کی بوسیدہ تختیوں پر رہ جاتے ہیں ۔۔۔ دکھ تو بس رہنے والوں یا سہنے و...

یک طرفہ محبت

انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے بے بسی اور بے بسی کی سب سے بد صورت قسم ہوتی ہے یک طرفہ محبت کیونکہ اس میں کسی کا بھی فایدہ نہیں ہو سکتا۔۔ میری رائے میں یک طرفہ محبت کرنے والوں کا بڑا ظرف ہوتا ہے ایسے لوگ خود کو محبوب کے سامنے جھکا لیتے ہیں۔۔ اپنے پیروں میں محبت کے نام کی زنجیر یں ڈال کر اپنے ہی سفر کے آڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ ایسے لوگ اپنے ہی اوپر ظلم کی ضد میں ہوتے ہیں۔۔ یک طرفہ محبت تو بس پسندیدہ تماشا ہے ۔ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اس میں مبتلا مریضوں کے لیے کوئ دوا نہیں ہے بس دعا ہے ایسے لوگوں کی بے بسی پہ بس ترس آ تا ہے محبوب کی بے رُخی کو بھی محبت کا انعام سمجھ کر دل میں بسائے رکھتے ہیں ۔۔